اهل تشيع حق پر هيں

ساخت وبلاگ
کیا صحابہ کی فضیلت قرآن میں بیان ہوئی ہے؟سوال: حضرت ابو بکر کی صحابیت قرآن سے ثابت ہے۔ قرآن پاک کی آیت ہے:(إذ يقول لصاحبه لا تحزن) [التوبہ:40] "جب رسول(ص) اپنے ساتھی سے کہتے تھے غم نہ کرو۔"اور رسول خدا(ص) کے متعلق اللہ تعالی نے یہ اعلان کیا ہے: (وما ينطق عن الهوى إن هو إلّا وحي يوحى) [النجم: 3-4] "رسول اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتا وہ تو ایک وحی ہوتی ہے جو کی جاتی ہے۔"اسی لیے رسول خدا(ص) کا ہر فرمان وحی الهی کا درجہ رکھتا ہے اور رسول خدا(ص) اپنے صحابہ کی تعظیم و توقیر کیا کرتے تھے اور ہر ایک کے حق میں بهت سی احادیث موجود ہیں۔ اب اس کے باوجود جو شخص یا گروہ ان نفوس قدسیہ پر اعتراض کرتا ہے تو وہ در حقیقت ان کے بجائے رسول خدا(ص) کی ذات والا صفات پر اعتراض کرتا ہے۔جواب: رسول خدا(ص) کے صاحب ہونے کا حضرت ابو بکر کو شرف حاصل ہے:(إذ يقول لصاحبه لا تحزن) [التوبہ:40]. اس مسئلہ میں حقیقت یہ ہے کہ لفظ "صاحب" سے کوئی خاص اعزاز انہیں نہیں ملتا؛ کیونکہ قرآن مجید میں ایک مومن اور کافر کا واقعہ موجود ہے جس میں یہ الفاظ موجود ہیں:(قال له صاحبه وهو يحاوره أكفرت) [الكهف:37] "اس نے گفتگو کرتے ہوئے اپنے ساتھی سے کہا کیا تو نے کفر کیا۔"اس آیت مجیدہ میں کافر کو مسلم کے صاحب کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ اورحقیقت یہ ہے کہ مصاحب ہو یا اخوت ہو اس کے لیے کافر و مومن یکسان ہیں۔ ہر شخص جو نسب میں رشتہ دار ہو، وہ بھائی کہلاتا ہے خواہ مومن ہو یا کافر ہو، اور ہر ہمراہی صاحب کہلاتا ہے خواہ مومن ہو یا کافر ہو۔قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے قید کے دو ساتھیوں کو مخاطب کر کے فرمایا تھا:(يصاحبي السجن.... الخ) [يوسف:39] "میرے قید خانے کے دو ساتھیو.... الخ."حضرت یوسف علیہ السلام اللہ کے نبی اور اهل تشيع حق پر هيں...ادامه مطلب
ما را در سایت اهل تشيع حق پر هيں دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : ghayyur بازدید : 7 تاريخ : پنجشنبه 3 اسفند 1402 ساعت: 20:28

صحيح'>صحيح بخاري اور صحيح مسلم میں اہل بیت ؑ سے منقول روایات کا جائزہجیساکه صحاح ستہ [چھے اہم کتابیں ] میں سے دو اہم کتاب صحیحین [ صحیح بخاری اور صحیح مسلم ]مسلمانوں کی اکثریت کے نزدیک قرآن مجید کے بعد اسلامی تعلیمات کا سب سے اہم ترین مجموعہ ہے۔ ہم ذیل میں ان کتابوں میں اہل بیت ؑ سے منقول روایات کا جائزہ لیتے ہیں۔صحیح بخاری:اس میں موجود روایات کی کل تعداد 7275 و با حذف مکررات 2602 ہیں ۔ اس میں پیغمبر ؐکے سب سے اہم شاگرد اور تربیت یافتہ شخصیت یعنی حضرت علیؑ سے رسول پاکﷺ کی صرف ’’۲۹‘‘ احادیث [1]نقل ہوئی ہیں۔ مکتب وحی کے پرورش یافتہ جناب فاطمہ ؑ سے چار ، امام حسن مجتبیؑ سے کوئی ایک روایت بھی نقل نہیں ہوئی ہے۔ امام حسین ؑسے صرف ایک روایت نقل ہوئی ہے[2]. انھیں چند احادیث کے علاوہ بخاری نے خود ان اہم اسلامی شخصیات کی سیرت اور تعلیمات کا ایک نمونہ بھی نقل نہیں کیا ہے۔ اسی طرح امام سجاد ؑسے تین اور امام باقر ؑ سے چار روایات اس میں نقل ہوئی ہیں۔ لیکن امام صادقؑ امام موسی کاظمؑ سمیت باقی ائمہ اہل بیت ؑ سے کوئی حدیث صحیح بخاری میں نہیں ہے۔ [3] صحیح مسلم:اس میں موجود روایات کی کل تعداد 7275 و با حذف مکررات 3033ہیں ۔ ابن جوزی کے بقول اس میں امام علی ؑ سے 35 روایات نقل ہوئی ہیں[4]۔ جناب فاطمہ زهراء ؑ سے تین روایات ، امام حسنؑ سے کوئی روایت نقل نہیں ہوئی ہے ۔امام حسینؑ سے ایک روایت، امام سجادؑ سے چار ، امام باقر ؑ سے 13 ، امام صادق ؑ سے 8 لیکن امام کاظمؑ سمیت باقی ائمہ اہل بیت ؑ سے ایک روایت بھی نقل نہیں ہوئی ہے۔ [5]حواله جات1- ابن‌جوزی، تلقیح فهوم اهل‌الاثر، ص2872- مجلة علوم حدیث، شماره47، ص1۵۰-١۷۸. اهل تشيع حق پر هيں...ادامه مطلب
ما را در سایت اهل تشيع حق پر هيں دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : ghayyur بازدید : 6 تاريخ : پنجشنبه 3 اسفند 1402 ساعت: 20:28

جبر و اختياراستاد مشرف: سيد غيور الحسنينتحرير: سيد خورشيد حيدر شيرازيخداوند متعال خالق حقیقی انسان ، انسان کو خلق کرنے کے بعد فرماتا ہے: "لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ".(1) اللّٰہ تعالیٰ نے انجیر،زیتون،طور سینا اور شہر مکہ کی قسم ذکر کر کے ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے انسان کو سب سے اچھی شکل وصورت میں پیدا کیا ،اس کے اَعضاء میں مناسبت رکھی، اسے جانوروں کی طرح جھکا ہوا نہیں بلکہ سیدھی قامت والا بنایا، اسے جانوروں کی طرح منہ سے پکڑ کر نہیں بلکہ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر کھانے والا بنایا اوراسے علم، فہم، عقل، تمیز اور باتیں کرنے کی صلاحیت سے مُزَیّن کیا۔اور مخلوقات میں دوسري موجودات پر فضیلت بخشتے ہوئے أشرف المخلوقات قرار دیا کیونکہ انسان تفکر کے ذریعے قرب الہی کی خاطر کمالات کی طرف سفر کرتا ہے۔ پھر اسی أشرف مخلوق پر لطف و کرم کرتے ہوئے اس کی هدایت کی خاطر أنبیاء ،آئمه ،کتب آسمانی کے ذریعے اپنی حجت اس پر تمام کی اور فرمایا: "إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَ إِمَّا كَفُورًا ".(2) یقینا ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے۔ چاہے وہ شکر گذار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا بن جائے۔هدایت کے بعد شکر گزار بننا اور کفران نعمت کرنے والا ہونا اس کا اختیار انسان کے ہاتھ میں دیا گیا، مگر کیا حقیقت یہی ہے یا نہیں؟ آیا انسان بااختیار ہے یا مجبور؟ اگر بااختیار ہے تو اُس اختیار کا کوئی مخصوص دائرہ ہے؟!!! اور اس طرح کے دسیوں سوالات زمانہ قدیم سے "جبر و اختیار انسان " کے عنوان سے ہونے والی بحثوں میں مختلف مکاتب فکر کے ہاں مطرح ہوتے رہے ہیں اور اس پر مختلف نظریات قائم کیے گیے ہیں۔ اور عرصہ دراز سے اس مسئلہ نے عقل بشری کو مشکلات میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ کیونکہ " جبر و اختیار اهل تشيع حق پر هيں...ادامه مطلب
ما را در سایت اهل تشيع حق پر هيں دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : ghayyur بازدید : 8 تاريخ : پنجشنبه 3 اسفند 1402 ساعت: 20:28

فضائل امام على نقي عليه السلامہمارے تمام آئمہ علیہم السلام صرف امت کے رہنما اور احکام قرآنی کے بیان کرنے والے نہیں تھے بلکہ شیعہ معارف کے مطابق امام علیہ السلام زمین پر اللہ کا نور، مخلوقات عالم پر اللہ کی حجت کاملہ، حیات کائنات کا محور، خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ فیض، روحانی کمالات کا آئنیہ نور، انسانی فضائل کا اعلٰی نمونہ، تمام اچھائیوں اور نیکیوں کا مجموعہ، علم اور قدرت خدا کا مظہر، بندگان خدا رسیدہ کا اعلٰی شاہکار، ہر طرح کے سہو و نسیاں سے پاک و صاف، رموز زمین، اسرار غیب، اور فرشتگان الٰہی کے راز دان، جن کی ولایت رسول خدا(ص) كے علاوه انبیاء و مرسلین سے بالا تر، جن کی حقیقت ان کے علاوہ کسی اور کے لئے قابل درک نہیں ہے، یہ پروردگار عالم کا خاص عطیہ ہے۔جس سے صرف حضرت محمد و آل محمد علیہم السلام سے مخصوص رکھا، طمع کرنے والے کا یہاں گزارا نہیں ہے۔ آسمان امامت کے دسویں آفتاب، ہمارے مولی، ہمارے ولی و سرپرست حضرت امام ابو الحسن علی نقی علیہ السلام نے ہم شیعوں پر یہ احسان غظیم فرمایا کہ، زیارت جامعہ کبیرہ کی شکل میں معرفت امام علیہ السلام کا لامحدود اور پیش قیمت خزانہ ہمیں عطاء فرمایا۔ (1)معارف خداوندی کے چمن کھلائے، اور علم و دانش کے گوہر روشن کئے اور اپنے دوستوں کو ان کی عقل و فہم کے مطابق رموز امامت سے روشناس کرایا ہے۔ حکمت الٰہی کے ایک گوشہ کی نقاب کشائی کی ہے۔ ہماری جانیں قربان ہوں اس خاک پاک پر جہاں امام علیہ السلام مدفون ہیں کہ ہمیں عظمت الٰہی سے آگاہ کیا اور تشنگان معرفت کو آب کوثر سے سیراب فرمایا۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے ایک دوست کی درخواست پر زیارت جامعہ کبیرہ اسے تعلیم دی تھی کہ اس طرح آئمہ علیہم السلام کی زیارت کیا کرو۔حضرت ابوالحسن امام علی ن اهل تشيع حق پر هيں...ادامه مطلب
ما را در سایت اهل تشيع حق پر هيں دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : ghayyur بازدید : 25 تاريخ : سه شنبه 3 بهمن 1402 ساعت: 19:10

كيا مزارات كو تعمير كرنا جائز هے؟تحرير: سيد غيور الحسنينقبور پرعمارت بنانا ایک اصطلاح ہے جس میں قبر پر کی جانے والی ہر طرح کی تعمیر شامل ہے ۔ اہل سنت اور شیعوں کے درمیان حکم شرعی کے لحاظ سے قبور پر عمارت بنانے کا اختلاف ایک طرف اور وہابیوں سے ان کا اختلاف ایک اور جہت سے ہے۔ مذاہب اسلامی خاص طور پر شیعہ حضرات طول تاریخ میں بزرگوں، پیشوا اور علما کی قبور پر عمارتیں بناتے چلیں آ رہے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے اس امر کی بازگشت صدر اسلام کی طرف ہے نیز تاریخی شواہد کے مطابق صحابہ اور تابعین کی جانب سے کبھی ان تعمیرات کو تنقید کا سامنا نہیں رہا اگرچہ وہابیت کے نزدیک اس کے مفہوم میں وسعت پائی جاتی ہے۔ وہابی معتقد ہیں کہ مردوں کی قبور پر عمارت کی تعمیر ایک طرح سے ان قبور کی عبادت کے مقدمات فراہم کرتی ہے اور عبادت میں شرک کی مانند ہے، جبكه عبادت کسی کو اوصاف الہی سے متصف کرتے ہوئے اس کے سامنے اظہارِ خضوع کرنا ہے۔ اس اشكال كا جواب هم " كيا توسل و شفاعت حرام ہے اور غیر خدا كى هر قسم کی تعظیم شرک ہے؟" کے عنوان سے بيان كر چکے هيں۔ اور يهاں پر مزارات كي تعمير پر دليل بيان كرنا مقصود هے۔پهلی دلیل: قرآن مجید اصحاب کہف کے واقعہ میں فرماتا ہے کہ جب وہ تقریباً تین سو برس کی طویل نیند سے بیدار ہوئے اور ان کے بارے میں شہر کے لوگوں کو پتہ چلا تو شہر سے لوگ غار کی طرف دوڑے اور جیسے ہی وہاں پہنچے، تو انہوں نے اصحاب کہف کو پھر مردہ پایا۔ قرآن مجید اس کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب لوگوں نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے :﴿فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا﴾[الكهف: 21] "ت اهل تشيع حق پر هيں...ادامه مطلب
ما را در سایت اهل تشيع حق پر هيں دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : ghayyur بازدید : 26 تاريخ : سه شنبه 3 بهمن 1402 ساعت: 19:10

باب الحوائج شهزاده علی اصغر علیہ السلاماہل بیت علیہم السلام کی ذوات مقدسہ طہارت و عصمت،منا بع نور اور معرفت کی کانیں ہیں۔اس خاندان بزرگوار سے تعلق رکھنے والا ہر فرد خواہ وہ سن صغیر کا مالک ہویا سن کبیر کا اپنی جگہ خورشید عصمت و طہارت،تقویٰ ،شجاعت، شہامت اور قیامت تک مخلوق خدا کے لیے سرچشمہ ہدایت ہیں۔ یہ ایک ایسی معصوم ہستی ہے جو سن کے اعتبار سے سفینہ کربلا میں سب سے چھوٹی تھی لیکن معرفت و ولایت کے اعتبار سے اکمل تھی اور کرب و بلا ایک ایسا سفینہ ہے جس میں ہر عمر سے تعلق رکھنے افراد کے لیے نمونہ عمل موجود ہے اور اس سفینہ کے مالک و سردار کا نام حسین ابن علی عليه السلام ہے جن کے بارے میں رسول "ماینطق عن الهوی" کے مصداق فرماتے ہیں: "إنّ الحسین مصباح الهدیٰ و سفینة النجاة"(۱)والدین کا تعارفوالد کا اسم گرامی حسین بن علی بن ابوطالب بن عبد المطلب علیہم السلام ۔ امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں جن کے بارے میں حبیب خدا فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں: "الحسین منی وأنا من الحسین".(2) والدہ کا اسم گرامی رباب بنت امرء القیس بن عدی بن اوس بن جابر بن کعب بن علیم بن جناب بن کلب تھا۔(۴) امرء القیس جناب رباب ؑ کے والد گرامی دوستداران اہل بیت میں سے تھے اور جانتے تھے کہ بقا ء انسان اس میں مضمر ہے کہ وقت کےامام کی معرفت اور پہچان حاصل کی جائے اور بخاطر امام ہر قسم کی قربانی سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ ہشام کلبی لکھتے ہیں؛ "و کانت الرباب من خیار النّساء وأفضلهنّ." جناب رباب سلام اللہ علیہا بہترین اور افضل ترین عورتوں میں سے تھیں۔ اور جناب رباب کے والد گرامی عرب کے عظیم خاندان کے اشراف میں سے تھے کہ جن کی امام کے نزدیک قدر ومنزلت تھی۔( 3)سن مبارکماہتاب امامت کے اس کران کی عمر کرب و ب اهل تشيع حق پر هيں...ادامه مطلب
ما را در سایت اهل تشيع حق پر هيں دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : ghayyur بازدید : 29 تاريخ : سه شنبه 3 بهمن 1402 ساعت: 19:10

إنّ الطباطبائي كان فيلسوفاً وحكيماً، وكان أستاذاً موهوباً كرّس معظم حياته لتعليم المعارف الإسلاميّة الحقّة. أعطى دروساً في الفلسفة والتّفسير والأخلاق والفقه والأصول وغير ذلك في مدينة "قم". نبيّن سيرته بصورة مختصرة في النّقاط التالية:اسمه ونشأتههو السيّد محمّد حسين بن السيّد محمّد بن السيّد محمّد حسين الميرزا على أصغر شيخ الإسلام العلامة الطباطبائى التبريزى القاضى‏.[1] وُلد في تبريز في التاسع والعشرين من ذي الحجة سنة 1321 هـ في أسرة عريقة معروفة بالفضل والعلم. توفّيت والدته وعمره خمس سنوات، وتوفّي والده عندما بلغ التّاسعة من عمره، وبقي هو وأخوه السيّد محمّد حسن القاضي الطباطبائي تحت كفالة وصيّ أبيه الذي كان يرعاهما برفق.[2]دراستهتعلّم القرآن والأدب الفارسي والريّاضيات في مدرسة تبريز، وتابع دراسته في الجامعة الإسلاميّة في تبريز حيث تعلّم الصّرف والنّحو، وعلم المعاني وعلم البيان، والفقه وعلم الأصول، وعلم الكلام. سنة 1344هـ، بغية إكمال دراسته، انتقل الطباطبائي إلى النّجف الأشرف وأمضى فيها أحد عشر عاماً منشغلاً بالدّراسات الفقهيّة والأصوليّة والفلسفيّة والعرفانيّة والرّياضيّة. وبسبب تدهور الأوضاع الاقتصاديّة، اضطرّ الطباطبائي إلى مغادرة النّجف والعودة إلى مسقط رأسه تبريز حيث اشتغل بالزّراعة لمدّة عشر سنوات في قرية "شادباد" التبريزيّة. وقام خلال هذه الفترة بتأليف رسائل عرفانيّة وفلسفيّة، منها "الإنسان قبل الدنيا" و"الإنسان في الدّنيا" و"الإنسان بعد الدّنيا"، والرسائل الأربع وغيرها من الرسائل. وبسبب الاضطرابات التي حدثت في محافظة أذربيجان، توجّه الطباطبائي إلى قم سنة 1364هـ، وظلّ يعيش فيها ما يقارب 35 سنة، حيث درّس علم التّفسير والفلسفة والعلوم العقليّة. ومنذ سنة 1368هـ، شرع بتدريس اهل تشيع حق پر هيں...ادامه مطلب
ما را در سایت اهل تشيع حق پر هيں دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : ghayyur بازدید : 11 تاريخ : دوشنبه 18 دی 1402 ساعت: 17:01

صلوات فاطمه زهرا سلام الله عليها ميں"والسر المستودع فيها" كا كيا مطلب هے؟تحرير : سيد غيور الحسنينصلوات فاطمه زهرا سلام الله عليها يه هے (اللّهُمَّ صَلِّ عَلی فاطِمَةَ وَ أَبيها وَ بَعْلِها وَ بنيها وَالسِّرِّ الْمُسْتَوْدَعِ فيها بِعَدَدِ ما أَحاطَ بِه عِلْمُکَ)[1]ترجمه: پروردگار درود وصلوات بھیج فاطمہ زہرا اور ان کے والدبزرگوار، شوہرنامدار اور اولاد پاک پر اور اس سر پر جسے خدا نے بی بی کی ذات میں ودیعت فرمایا ہے اس قدر کہ جتنا تیرے علم میں ہے.سوال یہ ہے کہ وہ سر کیا ہے؟؟؟ لفظ "سر" سے مشخص هے كه يه اسرار الهي ميں سے هے جس كو خدا اور اس كے رسول صلى الله عليه و آله وسلم اور آل رسول عليهم السلام كے علاوه كوئي نهيں جانتا. ايسا راز جو تمام مخلوقات سے پوشيده نه هو وه راز نهيں هوتا. ليكن چند احتمالات ذكر كيے گئے هيں: الف ـ امام مهدي عجل الله تعالى فرجه الشريف؛ ب ـ امامت و ولایت؛ ج ـ امر آئمه عليهم السلام؛ د ـ علوم ربانی.شايد اسي بات پر يه حديث دلالت كرتي هے : "من أدرک فاطمة فقد أدرک ليلة القدر.... ما أدرک ما ليلة القدر"يه وہی سر هے جس کی بنیاد پر علی عليه السلام کا ہم کفو بنیں، حجج الہیہ کےلیے حجت بنیں، امام زمانہ عجل الله تعالى فرجه الشريف کےلیے اسوہ حسنہ بنیں، صلب آدم عليه السلام کے بغیر خاص اہتمام سے اس دنیا میں تشریف لائيں. پیامبر صلى الله عليه و آله و سلم کا حد سے زیادہ احترام دینا، تمام ائمہ عليهم السلام کی طرف سے خصوصی احترام. یہ سب اسی راز کی باتیں ہی لگتی ہیں. باقی حقیقت تو شاید اس سے بھی آگے ہو جس کو ہمارے عقول سمجھ نہ پاتے ہوں. واللہ اعلم[1] - برگرفته از: صحیفهٔ مهدیه، اثر سیدمرتضی مجتهدی سیستانی، ترجمهٔ مؤسسهٔ اسلامی ترجمه، نشر حاذق، ص ۵۸۴. اهل تشيع حق پر هيں...ادامه مطلب
ما را در سایت اهل تشيع حق پر هيں دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : ghayyur بازدید : 11 تاريخ : سه شنبه 12 دی 1402 ساعت: 14:40

محمد ناصر الدين الألباني هو أحد العلماء الّذين اشتهروا في علم الحديث النبويّ الشّريف، والّذي عُرِف عنه كباحث مختصّ في علوم الحديث، فهو كالبخاريّ في عصره، وفيما يأتي نبذة عن الألبانيّ: اسمه ونشأته هو العلّامة محمّد ناصر الدين الألباني الأرنؤوطي، وُلِد في ألبانيا سنة 1914م في منطقة أشقودرة، كان والده أحد علماء المذهب الحنفي، هاجر إلى سوريا بعد أحداث منع النّساء من الحجاب والنّقاب من قبل الرئيس الألبانيّ؛ فكان لهجرته سببًا في تعلّم الّلغة العربيّة، وتفرّغه للعلّم.دراسته درس الإبتدائيّة في مدرسة جمعيّة الإسعاف الخيري في دمشق، ثمّ وضع له والده خطّة دراسيّة؛ لدراسة علوم القرآن الكريم، والحديث النّبويّ، بالإضافة إلى تعلّم "الفقه الحنفيّ"، وقد ساعده على ذلك وجود مكتبة لوالده مليئة بالكتب، ولكنّه لم يكتفِ بذلك فكان يقضي السّاعات الطّوال في "المكتبة الظاهريّة" في دمشق؛ حتى ينهل من كلّ العلوم. أخذ عن أبيه مهنة إصلاح الساعات فأجادها حتى صار من أصحاب الشهرة فيها، وأخذ يتكسّب رزقه منها، وقد وفرّت له هذه المهنة وقتاً جيداً للمطالعة والدّراسة، وهيّأت له هجرته للشام معرفة باللّغة العربيّة والاطّلاع على العلوم الشرعيّة من مصادرها الأصليّة. وعلى الرّغم من توجيه والد الألباني المنهجيّ له بتقليد المذهب الحنفي وتحذيره الشّديد من الاشتغال بعلم الحديث، فقد أخذ الألباني بالتوجّه نحو علم الحديث وعلومه، فتعلّم الحديث في نحو العشرين من عمره متأثّراً بأبحاث مجلّة المنار التي كان يصدرها الشيخ محمد رشيد رضا، و كان أوّل عمل حديثي قام به هو نسخ كتاب "المغني عن حمل الأسفار في تخريج ما في الإحياء من الأخبار" للحافظ العراقي مع التّعليق عليه. كان ذلك العمل فاتحةَ خيرٍ كبيرٍ على الألباني حيث أصبح الاهتمام بالحد اهل تشيع حق پر هيں...ادامه مطلب
ما را در سایت اهل تشيع حق پر هيں دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : ghayyur بازدید : 16 تاريخ : دوشنبه 4 دی 1402 ساعت: 16:10

مسئله شر اور اس كا حلتحرير: سید شهباز حیدر نقویانسان کو خداوند متعال نے فطرتاً اس طرح بنایا ہے کہ وہ تجسس کرتا ہے کسی بھی چیز کی گہرائي تک جانا چاہتا ہے چونکہ خالق كائنات کا وجود مخفی ہے انسان اس پر ایمان تو لے آتا ہے لیکن اس کا تجسس ختم نہیں ہوتا یہ سوال کرتا ہے. کبھی خالق کے وجود پر سوال کرتا ہے، کبھی اطمینان قلب کے واسطے اس کو دیکھنے کا تقاضہ کرتا ہے، کبھی اس کے وجود کی حدود کو ماپتا ہے تو کبھی اس کی صفات پہ سوال اٹھاتا ہے. اسی طرح کے ہزاروں سوالات میں سے ایک سوال یہ ہے کہ خدا جو اس کائنات کا خالق ہے اس کی صفات میں عالم مطلق،قادرمطلق اور خیر محض ہونا ہے اگر وہ خیر محض ہے تو اس نے کائنات کی ساخت تشکیل دیتے ہوئے یہ رعایت کیوں نا کی کہ اس کائنات میں کسی کے لئے ضرر اور نقصان نا ہوتا ؟اس كائنات ميں شر كا وجود خدا كي صفات: عالم مطلق،قادر مطلق اور خیر محض سے متناقض هے. اس تناقض كو ختم كرنے كے لیے ضروري هے كه حقيقت شر كو بيان كريں۔1- تعریف شرشر ایک بدیهی مفهوم ہے جس کی تعریف کی احتیاج نہیں البتہ مختصرا یوں کہا جا سکتا ہے کہ فقدان کمال یا درد و رنج جو خدا کی مخلوق یعنی انسان کو پہنچے اسے یہ انسان شر تصور کرتا ہے. (جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص121)2- اقسام شرشر کی دو اقسام ہیں ایک شر طبیعی ہے اور ایک شر اخلاقی۔1- شر اخلاقی: جس شر کا عامل خود ذات انسان ہے جیسے چوری ، قتل و غارت ، جنگ و جدال وغیرہ.2- شر طبیعی: جس میں انسان کا عمل دخل نہیں ہوتا جیسے قدرتی آفات، زلزلہ ، سیلاب ، طوفان اور وہ امراض جو لا علاج ہیں شر طبیعی میں آتے ہیں۔(جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص121-122)مسئله شر كا حل1- بعض فیلسوف یہ کہتے ہیں کہ شر اصلا موجود ہی نہیں ہے ملا صدرا اس پر دلیل ب اهل تشيع حق پر هيں...ادامه مطلب
ما را در سایت اهل تشيع حق پر هيں دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : ghayyur بازدید : 49 تاريخ : سه شنبه 22 فروردين 1402 ساعت: 14:55